ELC - MODULE-1- SESSION-2
لوگوں کو منظم کرنا - Managing People
معلم بحیثیت منتظم Teacher as a Manager:
سابقہ سیشن میں معلم بحیثیت محقق کی حیثیت پہ گزارشات کیں تھیں اس پوسٹ میں معلم بحیثیت منتظم کی حیثیت اور اس سے متعلق کچھ عملی اقدامات Practical solutions پر بات کروں گا۔
سب سے پہلے ایک معلم کو اپنے Managerial style میں فعالیت Activeness اور اسکے ساتھ ایک مخصوص انداز میں وضاحتی انداز Assertiveness پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مطلوبہ کاموں کو متعینہ وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔ لیکن اس انداز میں اس بات کا پوری طرح خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں وضاحت کرنے میں جارحانہ انداز Aggressiveness نہ پیدا ہوجائے۔ اپنے متعلقین کی مخالف رائے کو مکمل توجہ سے سننا یہ بہت کمال کی صفت ہے۔
شخصیات کی اقسام Understanding Personality types:
ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اس معاشرے میں بطور مثال جن شخصیات کو پیش کیا جاتا ہے یا شخصیت کے تعارف کے لیے جن الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے، وہ کچھ اس طرح ہوتا ہے جیسے:
ان سے ملیے یہ ہمارے شہر کی بڑی کاروباری شخصیت ہیں، یہ بڑی علمی شخصیت ہیں، یہ بڑے زمیندار ہیں، یہ بڑے مالدار ہیں۔۔ وغیرہ وغیرہ
حالانکہ لوگوں کے رویوں پر جن لوگوں نے کام کیا ہے ان کے تحقیقی مقالے میں شخصیات کے خواص اور ان کی تقسیم کچھ اس طرح سے کی جاتی ہے:
- جارحانہ شخصیت Aggressive personality
- حاکمانہ شخصیت Domineering personality
- فعال شخصیت Active personality
- جابرانہ شخصیت Pushy personality
- غیر فعال شخصیت Passive personality
- غلامانہ شخصیت Slavish personality
مذکورہ بالا شخصیات کو اگر ہم گروپس میں تقسیم کریں تو اس کا خاکہ مندرجہ ذیل ہوگا:
دو قسم کی طاقتیں Two main powers:
درحقیقت شخصیت کا اطلاق انہی لوگوں پر ہوتا ہے جو طاقتور بھی ہوتے ہیں البتہ ہمارے زمانے میں جسمانی طاقتوروں سے زیادہ دوسرے قسم کے طاقتوروں کا بول بالا ہے، جو لوگ Professional Development یا Business Management کی Trainings کرواتے ہیں ان کے تدریسی ، مطالعاتی مواد میں دو بڑی طاقتوں کا ذکر پایا جا تا ہے:
- عہدہ پر مبنی طاقت Positional Power
- صفات پر مبنی طاقت Personal Power
تو ایک معلم/معلمہ کو طاقتور شخصیت بننے کے لیے جس طاقت کے حصول کی محنت کرنے چاہیے وہ Personal Power ہے۔ مثال کے طور پر :
- ذولفقار علی بھٹو Personal power کے مالک تھے۔ جبکہ ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو Positional Power کی مالک سمجھی جائیں گی۔
- مفتی محمود صاحب ؒ Personal power کے مالک تھے، جبکہ ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم کو Positional Power کا حامل سمجھا جائے گا۔
- عمران خان بطور کرکٹر Personal power کے مالک ہیں جبکہ ان کے صاحبزادگانPostional power کے ۔
مذکور بالا مثالوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کے جو لوگ Positional power کے حامل ہیں وہ Personal Power سے عاری ہیں بلکہ محض اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہےمتاع حیات Personal Power کے حصول کے لیے لگانا تو سودمند رہے گا لیکن اگر ہم نے اپنا سرمایہ حیات کسی ختم ہونے والی پوزیشن کے لیے لگا دیا تو گو یا ہم نے لگا یا نہیں بلکہ لٹا دیا۔
انتظامی طرز Managerial Styles:
یہ انتہائی دلچسپ موضوع ہے، درحقیقت وہ کون سا انتظامی طرز Managing style ہوگا، جن کی علامات سے یہ بات مزید واضح ہو کہ ہم کس رخ پر سفر کر رہے ہیں یعنی Personal power اندرونی صفات کے حصول کے لیے یا Positional power کسی عہدہ منصب پر فائز ہونے کے لیے؟
اس موضوع پر محترم جناب Douglas McGregor جوکہ ایک مایہ ناز Management professor تھے جن کا انتقال 1964 میں ہوا، سے منسوب ایک تحریر میں نے پڑھی جس میں انہوں نے اس کے بارے میں دو تقسیم بتائی ہے:
- X-STYLE MANAGER
- Y-STYLE MANAGER
X-STYLE MANAGER کے حامل لوگ جس قسم کے رویوں کو اپناتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
- ان کا برتاؤ ہمیشہ سخت اور ہر ایک پر اپنی خود مختاری دکھا نے کا ہوتا ہے۔
- وہ اپنے سامنے والے کو ہمیشہ اپنے سے کم دکھا نے کی کوشش کرتے ہیں۔
- ناقص کارکردگی پر فوراً اظہار برہمی اور سزا بھی دیتے ہیں۔
- ان کی جانب سے موصول ہونے والا فیڈ بیک اکثر منفی تائثرات پر مبنی ہوتا ہے۔
جبکہ Y-STYLE MANAGER کے حامل لوگ جس قسم کے رویوں کو اپنا تے ہیں :
- وہ دوسروں کے اور اپنے زیر اثر کام کرنے والوں کے بارے میں پُر امید رہتے ہیں۔
- ان کے زیر اثر لوگ خوشی خوشی اپنے آپ کو ان کے بتائے ہوئے مقصد کی طرف راغب کرتے ہیں۔
- وہ اپنے زیر اثر لوگوں میں اعتماد میں اضافہ کار ذریعہ بنتے ہیں۔
- ایسے لوگ حکم کم دیتے ہیں اور ذمہ دار بناتے ہیں۔
تنازعات میں برتاؤ Conflict Management:
ہمیں اپنی زندگی میں بہت سے ایسے امور پیش آتے ہیں جس میں کبھی ہمیں رائے میں اختلاف کا سامنا ہوتا ہے، کبھی فیصلے کی قبولیت میں ہمارے زیر اثر لوگ ہمارے خلاف ہوجاتے ہیں، کبھی ہمیں ہمارے جائز حق سے محروم کیا جاتا ہے، اور کبھی ہم خود بھی حق پر نہ ہونے کے باوجود اپنی طبیعی تقاضے کی بنیاد پر کسی سے بھی الجھ پڑتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک تنازعہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے بہت سے نقصانات میں سے ایک نقصان ہمیں یہ ہوتا ہے کہ بہت سا وقت ہمارا اس میں ضائع ہوتا ہے اور کبھی کبھار نتیجہ جب ہمارے حق میں نہیں نکلتا تو حسرت کے ساتھ ساتھ افسو س اور مایوسی ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جو کوئی شخص حق پہ ہونے کے باجود جھگڑا چھوڑ دے تو میں اُسے جنت کے بیچ میں گھر دلانا کا ذمہ دار ہوں، اور جو کوئی شخص باجود یہ کہ وہ حق پر نہیں لیکن پھر بھی اگر جھگڑا ختم کردے تو میں اسے جنت کے کنارے میں گھر دلا نے کا ذمہ دار ہوں۔
مذکورہ عنوان سے متعلق آڈیو ڈاؤن لوڈ کیجیے۔
خدمت کی واقفیت Service Orientation:
تعلیمی و تنظیمی اداروں میں جن رویوں سے ہمیں دشواری پیش آتی ہیں یہ وہ رویے ہوتے ہیں جن کا دعوی تو ہوتا ہے کہ ان کا ادارہ جوخدمات فراہم کرتا ہے وہ ان سے بخوبی واقف ہیں لیکن حقیقت اس کے خلاف ہوتی ہے، نتیجتا جن کے ذمہ خدمت کرنا ہوتا ہے وہ خدمت کروانے والے بن جا تے ہیں یعنی جو خادم ہوتے ہیں وہ مخدوم بن جاتے ہیں۔
Well written 👍
ReplyDeleteMasha Allah such great beneficial knowledge. JazakAllahu khair
ReplyDelete